تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی «‏‏‏‏اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ» نازل ہوئی، اس کے بعد وحی کچھ عرصہ کے لیے رک گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین رہنے لگے۔ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنھما نے وحی رک جانے کے اس عرصہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: [ بَيْنَا أَنَا أَمْشِيْ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِيْ جَائَنِيْ بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلٰی كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ» إِلٰی قَوْلِهِ: «‏‏‏‏وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ» فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَ تَوَاتَرَ ] [بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي…: ۴۔ مسلم: ۱۶۱ ] اس حالت میں کہ میں چلا جا رہا تھا میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ وہ فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا، میں اس سے ڈر گیا اور واپس آکر کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ» ‏‏‏‏ سے «وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ» ‏‏‏‏ تک، پھر وحی گرم ہو گئی اور مسلسل آنے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے سورۂ علق کی آیات نازل ہوئیں اور وحی رک جانے کے بعد سب سے پہلے سورۂ مدثر نازل ہوئی۔

(آیت 1) يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ: الْمُدَّثِّرُ اصل میں اَلْمُتَدَثِّرُ تھا تاء کو دال سے بدل کر دال میں ادغام کر دیا گیا۔ جو کپڑا جسم کے ساتھ ملا ہوا ہو اسے شعار اور جو اس کے اوپر پہنا جائے اسے دثار کہتے ہیں۔ اس خطاب کی وجہ کے لیے دیکھیے سورۂ مزمل کی پہلی آیت کی تفسیر۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.