تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 37،36) جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًا …: یہ سب کچھ ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلا ہے۔ بدلا دینے والا رب تعالیٰ ہو تو بدلا کتنا عظیم ہوگا، پھر برابر بدلا ہی نہیں، دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لامحدود گنا عطیہ ملے گا۔ البتہ گناہ کا بدلا اتنا ہی ہوگا جتنا گناہ ہے۔

عَطَآءً حِسَابًا: اس کے دو معنی ہیں، پہلا یہ کہ وہ عطیہ حساب سے ہوگا، یعنی ان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ایسا نہ ہوگا جو حساب میں نہ آئے۔ دوسرا معنی ہے کافی عطیہ۔ جیسے حَسْبِيَ اللّٰهُ کا معنی ہے مجھے اللہ کافی ہے، یعنی اتنا بدلا ہوگا جس سے زیادہ کی خواہش نہیں ہو گی۔

لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا: یعنی انتہائی لطف و رحمت کے باوجود قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اس قدر ہوگا کہ کوئی اس کے سامنے لب کشائی نہیں کر سکے گا۔ (اشرف الحواشی)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.