تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 4تا6) فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ …: سَاهُوْنَ سَهَا يَسْهُوْ سَهْوًا (ن) (غافل ہونا) سے اسم فاعلسَاهٍ (بروزن قَاضٍ) کی جمع ہے۔ يُرَآءُوْنَ رَائٰ يُرَائِيْ مُرَائَاةً وَرِيَاءً (مفاعلہ) سے فعل مضارع جمع مذکر غائب ہے، دکھاوا کرنا۔ آیات کی باہمی مناسبت یہ ہے کہ پہلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو کھلم کھلا قیامت کو جھٹلاتے اور اس کا انکار کرتے تھے اور ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل سے قیامت کو نہیں مانتے۔ یہ منافقین تھے جو آخرت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے، مگر اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے انھیں پڑھنا پڑتی تھی۔ حقیقت میں وہ اپنی نماز سے غافل تھے، یہ غفلت کئی طرح سے تھی: (1) طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے کہ ان نمازیوں سے مراد منافقین ہیں جو صرف دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے تھے، یعنی لوگوں کے سامنے ہوتے تو پڑھ لیتے ورنہ چھوڑ ہی دیتے۔ (2) اور پڑھتے بھی تو وقت ضائع کرکے پڑھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللّٰهَ فِيْهَا إِلَّا قَلِيْلاً ] [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب التبکیر بالعصر: ۶۲۲ ] یہ نماز منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگے مارتا ہے، اس میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ (3) ان کا نماز ادا کرنے کا انداز بتاتا تھا کہ انھیں اپنی نماز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نماز کے متعلق فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ١ۙ يُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا» ‏‏‏‏ [ النساء: ۱۴۲ ] بے شک منافق لوگ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ وہ (اللہ) ان کو دھوکا دینے والا ہے اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے، مگر بہت کم۔ (4) نماز میں بھول تو مخلص مسلمان سے بھی ہو سکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہو گئی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا تھا، مگر نماز ہی سے بھول ہو جائے، یہ نفاق ہے۔ اس لیےهُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (ان سے ان کی نماز میں بھول ہو جاتی ہے) نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا: «‏‏‏‏هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ» ‏‏‏‏ یعنی وہ اپنی نماز ہی سے بھولے ہوئے ہیں، انھیں خیال ہی نہیں کہ ہمیں نماز پڑھنی ہے۔پڑھتے ہیں تو یاد ہی نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، نہ خشوع ہے نہ خضوع، ڈاڑھی اور کپڑوں سے کھیل رہے ہیں، جمائیاں لے رہے ہیں، ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، غرض ساری نماز پڑھ جاتے ہیں مگر کچھ پتا نہیں کہ کیا پڑھا؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.