تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

114۔ 1 جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ ملکر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا، جنہوں نے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباو اجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ 114۔ 2 تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ 114۔ 3 یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا۔ چناچہ جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدہ کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا کہ یہ خوشخبری ہے اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہونگے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر زیادتیاں کی ہیں انکے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یا قتل کردیا جائے۔ چناچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.