تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

3۔ 1 اس کی تفسیر حضرت عائشہ ؓ سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) 3۔ 2 یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.