تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

41۔ 1 ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یا اللہ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور؟ پھر ان سب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ یا اللہ سچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کردینے والا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس اب کافی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے، جو سب کچھ آنکوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ ' شہید ' (گواہ) کے معنی ' حاضر ناظر ' کے کرتے ہیں اور یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ' حاضر ناظر ' باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے، جو شرک ہے، کیونکہ حاضر ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے (شہدآء علی الناس) (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑیگا۔ بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بےبنیاد ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.