تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

93۔ 1 یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (1) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے) (2) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے۔ (3) قتل عمد جس کا مطلب ہے ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے مثلا اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ (3) مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علما مزکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے (الا من تاب واٰمن وعمل عملا صالحا) (الفرقان۔ 70) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبۃ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مکث طویل (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لیے ہی ہے علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہوجائے گی۔ (فتح القدیر و ابن کثیر)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.