تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

157۔ 1 اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہو سکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ) سورة آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیہ) مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ 157۔ 2 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنادی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چناچہ حضرت عیسیٰ ؑ کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی چڑھا دیا۔ جسے حضرت عیسیٰ ؑ کا ہم شکل بنادیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ ؑ کو سولی دی ہے درآنحالیکہ حضرت عیسیٰ ؑ اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جاچکے تھے (ابن کثیر و فتح القدیر) 157۔ 3 عیسیٰ ؑ کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کردیا گیا جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ ؑ نہیں کوئی اور ہے، بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ؑ کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے ایک فرقے نے کہا کہ عیسیٰ ؑ جسم کے لحاظ تو سولی دے دیے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف اور تردد اور شک کا شکار رہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.