تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

117۔ 1 حضرت عیسیٰ ؑ نے توحید و عبادت رب کی یہ دعوت عالم شیر خوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورة مریم میں ہے اور عمر جوانی و کہولت میں بھی۔ 117۔ 2 توفیتنی کا مطلب ہے جب تو نے مچھے دنیا سے اٹھالیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورة آل عمران کی آیت 55 میں گزر چکی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جن کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں فرشتے آ کر بتلائیں گے انک لاتدری ما احدثوا بعدک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہیں جانتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سنیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا (وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (صحیح بخاری، صحیح مسلم)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.