تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

27۔ 1 حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہاں ھَوَاذِن اور ثَقِیْف رہتے تھے، یہ دونوں قبیلے تیر اندازی میں مشہور تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے جس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ 21 ہزار کا لشکر لے کر ان قبیلوں سے جنگ کے لئے حنین تشریف لے گئے، یہ فتح مکہ کے 18، 19 دن بعد، شوال کا واقعہ ہے۔ مذکورہ قبیلوں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور مختلف کمین گاہوں میں تیر اندازوں کو مقرر کردیا تھا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ عجب پیدا ہوگیا کہ آج کم از کم قلت کی وجہ سے ہم مغلوب نہیں ہونگے۔ یعنی اللہ کی مدد کے بجائے اپنی کثرت تعداد پر اعتماد زیادہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ عجب کا کلمہ پسند نہیں آیا جب ہوازن کے تیر اندازوں نے مختلف کمین گاہوں سے مسلمانوں کے لشکر پر یک بارگی تیر اندازی کی تو اس غیر متوقع اور اچانک تیروں کی بچھاڑ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ میدان میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سو کے قریب مسلمان رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو پکار رہے تھے ' اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں ' کبھی یہ رجزیہ کلمہ پڑھتے اَنَا النَّبِیّْ لَا کَذ ِبْ۔ اَنَا ابنُ عَبْدِ الْمُظَّلِبْ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو (جو نہایت بلند آواز تھے) حکم دیا کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے آوازیں دیں۔ چناچہ ان کی ندا سن کر مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے کہ اللہ نے فتح عطا فرمائی، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل ہوئی، جس سے ان کے دلوں سے دشمن کا خوف دور ہوگیا، دوسرے فرشتوں کا نزول ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے چھ ہزار کافروں کو قیدی بنایا (جنہیں بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، جنگ کے بعد ان کے بہت سے سردار بھی مسلمان ہوگئے یہاں 3 آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا مختصر ذکر فرمایا ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.