تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

88۔ 1 جب موسیٰ ؑ نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔ 88۔ 2 یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے تمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہوجائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بےاختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہوجاتی ہے جس طرح حضرت نوح ؑ نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔ " رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا: اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.