تفسير ابن كثير



دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ نے خبر دیٍ ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار بھی ہیں اور مومنین بھی۔ لیکن ان کا کفر اور ان کا نفاق دوسروں کی بہ نسبت بہت عظیم اور شدید ہوتا ہے اور وہ اسی بات کے سزاوار ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے رسول پر جو بھی حدود و احکام نازل فرمائے ہیں ان سے بےخبر ہیں۔

جیسے کہ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی بدوی زید بن صوحان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے اور جنگ نہاوند میں ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ اعرابی ان سے کہنے لگا کہ تمہاری باتیں تو بڑی پیاری ہیں اور تم بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن یہ تمہارا کٹا ہوا ہاتھ مجھے تمہارے بارے میں شک پیدا کرتا ہے تو زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے کٹے ہوئے ہاتھ سے تمہیں شک کیوں ہوتا ہے یہ تو بایاں ہاتھ ہے۔‏‏‏‏

تو اعرابی نے کہا: واللہ! میں نہیں جانتا کہ چوری میں بایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا دایاں ہاتھ۔ تو زید بن صوحان بول اٹھے کہی اللہ عزوجل نے سچ فرمایا تھا کہ «الأَعرابُ أَشَدُّ كُفرًا وَنِفاقًا وَأَجدَرُ أَلّا يَعلَموا حُدودَ ما أَنزَلَ اللَّهُ عَلىٰ رَسولِهِ» یعنی یہ کفار اعراب اسی کے سزاوار ہیں کہ حدود اللہ سے نا واقف ہیں۔

امام احمد رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو صحرا نشین ہو وہ گویا جلا وطن ہے اور جو شکار کے پیچھے دوڑا دوڑا پھرتا ہے بڑا ہی بے سمجھ ہے اور جس نے کسی بادشاہ کی ہمنشینی اختیار کی وہ فتنہ سے دوچار ہو گیا۔‏‏‏‏ [سنن ابوداود:2859،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ ابوداؤد اور ترمذی، نسائی میں بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ حدیث مروی ہے۔ ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن غریب بتایا ہے۔ ثوری رحمہ اللہ سے روایت کے سوا اور کسی سے روایت کا ہمیں علم نہیں۔

صحرا نشینوں میں چونکہ عموماً بدمزاجی اجڈپن اور بدتمیزی ہوتی ہے اس لئے اللہ عزوجل نے ان میں اپنا رسول نہیں پیدا کیا۔ بعثت نبوت ہمیشہ شہری اور مہذب لوگوں میں ہوا کرتی ہے۔

جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ» [12-يوسف:109] ‏‏‏‏ یعنی ہم نے تم سے پہلے بھی جتنے رسولوں کو انسانوں کی طرف بھیجا وہ سب شہری اور متمدن بستیوں کے لوگ تھے۔

ایک مرتبہ ایک اعرابی نے اپنا ہدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا تو اس وقت تک اس کا دل خوش نہ ہوا جب تک کہ اس سے کئی گناہ زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس نہ بھیج دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب سے میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ قریشی، ثقفی، انصاری اور دوسی کے سوا کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں گا۔ [مسند احمد:2687:صحیح] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.