تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

42۔ 1 یعنی جب زمین پر پانی تھا، حتٰی کے پہاڑ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، یہ کشتی حضرت نوح ؑ اور ان کے ساتھیوں کو دامن میں سمیٹے، اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح رواں دواں تھی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے؟ اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسے بطور احسان ذکر فرمایا۔ (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11 ۝ ۙ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ 12۝) 59۔ الحاقہ:12-11) جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنادیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں (وحملنہ علی ذات الواح ودسر تجری باعیننا جزاء لمن کان کفر) (القمر) اور ہم نے اسے تخنوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کرلیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا۔ 42۔ 2 یہ حضرت نوح ؑ کا چوتھا بیٹا تھا جس کا لقب کنعان اور نام ' یام ' تھا، اسے حضرت نوح ؑ نے دعوت دی کہ مسلمان ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل رہ کر غرق ہونے والوں میں سے مت ہو۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.