تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

115۔ 1 یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ) 2۔ البقرۃ:183)۔ (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 5۔ المائدہ:3)۔ (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 6۔ الانعام:145) میں۔ یہ چوتھا مقام ہے۔ یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے یہ واضح ہے کہ ان میں جن چار محرکات کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ اس کی ضروری تشریح گزشتہ مقامات پر کی جا چکی ہے، تاہم اس میں (جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے) جو چوتھی قسم ہے۔ اس کے مفہوم میں حقیر عذر کو سامنے رکھ کر شرک کے لئے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی مزید وضاحت پیش خدمت ہے۔ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا جائے اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیا جائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبر پرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کیلیے نامزد تو کرتے ہیں مثلا یہ بکرا فلاں پیر کا ہے یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیارہویں کے لیے یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی وما اھل لغیر اللہ بہ میں داخل ہے چناچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیح مرتد کا ذبیحہ ہوگا اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں ہے کہ کسی حاکم اور کسی طرح کسی بڑے کی آمد پر حسن خلق یا شرع ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اور اس کی تعظیم کے طور پر جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا اس لیے کہ وہ وما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے۔ البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو وما اھل لغیر اللہ کا مدلول اور اس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال و احتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت وماذبح علی النصب (جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں) بھی داخل ہے، جسے سورة المائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور بھی حرام ہیں اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جا کر تقسیم کرنے کا مقصد تقرب لغیر اللہ ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ لوگوں نے بتلایا نہیں پھر آپ نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بتوں کے ہٹائے جانے کے بعد بھی غیر آباد آستانوں پر جا کر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان آستانوں اور درباروں پر جا کر ذبح کیے جائیں جو پرستش اور نذر ونیاز کے لیے مرجع عوام ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.