تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

2۔ 1 آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالیٰ آدم ؑ کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں 999 جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ 999 یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورة حج) پہلی رائے بھی بےوزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.