تفسير ابن كثير



دین حق کا باطل سے سمجھوتہ جرم عظیم ہے ٭٭

آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہٰذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دیں۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا۔ حدیث شریف میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے۔ [صحیح مسلم:156] ‏‏‏‏ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لیے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لیے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے آیت «لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ» [ 109-الکافرون: 6 ] ‏‏‏‏ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہو سکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہما کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے اور دوسری روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ [سنن ابن ماجه:2731قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.