تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

21۔ 1 یعنی جب مشرکین اور کفار دیکھیں گے کہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔ 21۔ 1 بعض کے نزدیک وہو سے اللہ کا کلام مراد ہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کے نزدیک جلود انسانی ہی کا اس اعتبار سے یہ انہی کے کلام کا تتمہ ہے قیامت والے دن انسانی اعضاء کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل (وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ) 24۔ النور:42) (اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ) 65) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلا جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا بول کر بتلائیں گے تو بندہ کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل (صحیح مسلم، کتاب الزہد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ رہا اور مدافعت کر رہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں اور میرے فرشتے کراما کاتبین گواہی کے لیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا (حوالہ مذکورہ)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.