تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

6۔ 1 حضرت عیسیٰ ؑ کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کا بھی انکار کیا، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ و ہارون اور داوٗد و سلیمان (علیہم السلام) پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔ 6۔ 2 یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سنائی چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' " انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسیٰ " میں اپنے باپ ابراہیم ؑ کی دعا اور عیسیٰ ؑ کی بشارت کا مصداق ہوں۔ احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ 0 ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر) 6۔ 2 یعنی عیسیٰ ؑ کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.