تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

20۔ 1 جب سورت کے آغاز میں نصف رات یا اس سے کم یا زیادہ قیام کا حکم دیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی کبھی دو تہائی سے کم یا زیادہ کبھی نصف رات کبھی ثلث رات جیسا کہ یہاں ذکر ہے۔ لیکن ایک تو رات کا یہ قیام نہایت گراں تھا دوسرے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ نصف رات ہوئی یا ثلث اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا جس میں فرمایا کہ بعض کے نزدیک ترک قیام کی اجازت ہے۔ 20۔ 2 یعنی اللہ تورات کی گھڑیاں گن سکتا ہے کتنی گزر گئی ہیں اور کتنی باقی ہیں تمہارے لیے یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ 20۔ 3 جب تمہارے لئے رات کے گزرنے کا صحیح اندازہ ممکن ہی نہیں، تو تم مقررہ اوقات تک نماز تہجد میں مشغول بھی کس طرح رہ سکتے ہو۔ 20۔ 4 یعنی تجارت اور کاروبار کے لئے سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑے گا۔ 20۔ 5 اسی طرح جہاد میں بھی پُر مشقت سفر اور مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، اور یہ تینوں چیزیں، بیماری، سفر اور جہاد نوبت بہ نوبت ہر ایک کو لاحق ہوتی ہیں اس لیے اللہ نے قیام اللیل کے حکم میں تخفیف کردی ہے کیونکہ تینوں حالتوں میں یہ نہایت مشکل اور بڑا صبر آزما کام ہے۔ 20۔ 6  اسباب تخفیف کے ساتھ تخفیف کا یہ حکم دوبارہ بطور تاکید بیان کردیا گیا۔ 20۔ 7 یعنی پانچوں نمازوں کی جو فرض ہیں۔ 20۔ 8 یعنی اللہ کی راہ میں حسب ضرورت و توفیق خرچ کرو، اسے قرض حسنہ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک اجر وثواب عطا فرمائے گا نفلی نمازیں، صدقات و خیرات اور دیگر نیکیاں جو بھی کرو گے اللہ کے ہاں ان کا بہترین اجر پاؤ گے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نصف حصہ مکی اور نصف حصہ مدنی ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.