تفسير ابن كثير



مغضوب کون؟ ٭٭

ان کی راہ سے بچا، جن پر غضب و غصہ کیا گیا، جن کے ارادے فاسد ہو گئے، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جاتے «لَا» کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لیے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا۔

بعض نحوی کہتے ہیں کہ «غَيْرَ» کا لفظ یہاں پر استثناء کے لیے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے۔

عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے۔ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ» سے مراد «غَيْرِ صِرَاطِ الْمَغْضُوبِ» ہے۔ مضاف «إِلَيْهِ» کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لیے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آ چکا ہے۔

بعض کہتے ہیں «وَلَا الضَّالِّينَ» میں «لَا» زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَالضَّالِّينَ» اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَغَيْرِ الضَّالِّينَ» پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا۔

تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ «لَا» نفی کی تاکید کے لیے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہم ہی نہ ہو کہ یہ «أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ» پر عطف ہے اور اس لیے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے۔

اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں عمل نہیں اسی لیے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی۔ اس لیے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد تو کرتے ہیں مگر اس کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لیے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں۔

جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے: «مَنْ لَعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ» [5-المائدة:60] ‏‏‏‏ الخ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں۔

فرمان الٰہی ہے: «قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ» [5-المائدة:77] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں“۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

مسند احمد میں ہے۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبرگیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئیے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے؟ اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگتا پھرتا ہے؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا: لو ان سے سواری مانگ لو۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ سن کر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بےتکلفی کے ساتھ بولتے چالتے ہیں۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: عدی «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہنے سے کیوں بھاگتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے؟ «اللَّهُ أَكْبَرُ» کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے؟ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بےتکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے «الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ» سے مراد یہود ہیں اور «الضَّالِّينَ» سے مراد نصاریٰ ہیں ۔ [سنن ترمذي:2954،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:209،195:حسن] ‏‏‏‏ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا ۔ [مسند احمد:5/32:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏ بعض روایتوں میں ان کا نام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ابن مردویہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بھی یہ تفسیر منقول ہے۔ ربیع بن انس، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری۔

دوسری سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے: «بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّـهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ» [2-البقرة:90] ‏‏‏‏ اس آیت میں ہے کہ ان پر غضب پر غضب نازل ہوا۔

اور سورۃ المائدہ کی آیت «قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّـهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَـٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ» [5-المائدة:60] ‏‏‏‏ میں بھی ہے کہ ان پر غضب الہٰی نازل ہوا

اور جگہ فرمان الہٰی ہے: «لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ * كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ» [5-المائدة:79] ‏‏‏‏ یعنی ”بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے“۔

اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو کہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الہٰی کا ایک حصہ نہ پا لو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لیے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اس لیے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا۔ انہی میں ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الہٰی نے ان کی رہبری کی اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ)‏‏‏‏‏‏‏‏۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.