تفسير ابن كثير



یقین کا مفہوم ٭٭

یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورۃ المدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ «قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ» [74-المدثر:43-47] ‏‏‏‏ ” جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی “، یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے۔

ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہوگا جس کا اکرام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ» سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کے لئے بھلائی کی امید ہے ۔ [صحیح بخاری:1243] ‏‏‏‏ اس حدیث میں بھی موت کی جگہ یقین کا لفظ ہے۔

اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کرلے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر ۔ [صحیح بخاری:1117] ‏‏‏‏

بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑلی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے۔

یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیاء اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے۔

پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحابہ تابعین و غیرہ کا یہی مذہب ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے۔

«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» سورۃ الحجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے «وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى الْهِدَايَةِ» ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.