تفسير ابن كثير



روح کے بارے میں ٭٭

بخاری وغیرہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں۔ کوئی کہنے لگا اچھا، کسی نے کہا مت پوچھو، کوئی کہنے لگا تمہیں اس سے کیا نتیجہ، کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو۔ جانے دو نہ پوچھو۔

آخر وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے، میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔
[صحیح بخاری:125] ‏‏‏‏

اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو۔

مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی۔

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت «قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا» ‏‏‏‏ [18-الكهف:109] ‏‏‏‏

” یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الٰہی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ۔ “ [سنن ترمذي:3140،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت «‏‏‏‏وَلَوْ اَنَّمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» ‏‏‏‏ [31-لقمان:27] ‏‏‏‏ کا اترنا بیان فرمایا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:155/15] ‏‏‏‏

” یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں تب بھی اللہ کے کلمات پورے نہیں ہو سکتے۔ “ اس میں شک نہیں ‎‎‎کہ توراۃ کا علم جو جہنم سے بچانے والا ہے بڑی چیز ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے۔

امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مکہ میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم علم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم الٰہی کے مقابلے میں یہ بھی بہت کم ہے۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:157/15] ‏‏‏‏

اور یہ آیت اتری «وَلَوْ اَنَّمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» ‏‏‏‏
۔ [31-لقمان:27] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسے جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہ فرمایا، اسی وقت آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری۔

یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے۔ وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت «‏‏‏‏قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ» ‏‏‏‏ [2-البقرة:97] ‏‏‏‏ نازل ہوئی [تفسیر ابن جریر الطبری:156/15] ‏‏‏‏ ” یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ “

ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے۔ اس کی تسبیح یہ ہے «‏‏‏‏سُبْحَانَکَ حَیْثُ کُنْتَ» ‏‏‏‏ اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے۔ [طبرانی کبیر:11476:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:156/15] ‏‏‏‏ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے، پس وہ فرشتوں کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لیے یہ فرشتے۔

پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں۔ تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے۔ مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی «او کما قال» ۔

بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الٰہی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہیئے، تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے۔

اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی، پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اب اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا۔

اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس بھی نہیں کہا جا سکتا، یہ کہنا بھی بطور انجام کو پہچاننے کے ہے۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ روح نفس اور مادہ کی اصل ہے اور نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے۔

بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.