تفسير ابن كثير



مسئلہ ٭٭

مردار جانور کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اس لیے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہو جاتا ہے، اسی طرح مردار کی کھیس [ کھیری ] ‏‏‏‏ بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گورخر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں۔ [سنن ترمذي:1726، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لیے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی، دوسرے اس لیے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔

ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہیئے اس لیے کہ وہ ایک تصویر کے لیے ذبح کیا گیا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہیئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ [تفسیر قرطبی:224/2] ‏‏‏‏

پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بے بس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لیے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں، غیر باغ کی تفسیر مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:236/1] ‏‏‏‏ اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لیے کھا لے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے، حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لیے مجبور کر دیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.