تفسير ابن كثير



ناممکن کو ممکن بنانے پہ قادر اللہ تعالٰی ٭٭

اوپر زکریا علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بے اولاد رہے، ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی، یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے۔

اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ مریم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بے مرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی، عیسیٰ علیہ السلام جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ علیہ السلام تھے۔

پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے، اسی لیے یہاں بھی اور سورۃ آل عمران میں بھی اور سورۃ انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں۔

حضرت مریم علیہا السلام عمران کی صاحبزادی تھیں، داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں۔ بنو اسرائیل میں یہ گھرانہ طیب و طاہر تھا۔ سورۃ آل عمران میں آپ علیہ السلام کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ نے آپ علیہ السلام کو بیت المقدس کی مسجد قدس کی خدمت کے لیے دنیوی کاموں سے آزاد کر دیا تھا۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور مریم کی نشو و نما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہو گئیں۔ آپ کی عبادت وریاضت، زہد وتقویٰ زبان زد عوام ہو گیا۔

آپ اپنے خالو زکریا علیہ السلام کی پرورش و تربیت میں تھیں۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے۔ زکریا علیہ السلام پر مریم علیہا السلام کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصاً یہ کہ جب کبھی آپ علیہ السلام ان کے عبادت خانے میں جاتے، نئی قسم کے بے موسم پھل وہاں موجود پاتے۔ دریافت کیا کہ مریم یہ کہاں سے آئے؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے، وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بے حساب روزیاں عطا فرمائے۔

اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ مریم کے بطن سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں۔ آپ مسجد قدس کے شرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الٰہی ہے، اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کر دیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا۔

مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں، وہ جگہ یہاں سے دور اور بےآباد تھی۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الٰہی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.