تفسير ابن كثير



رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ٭٭

ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہو گیا، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس پر یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادہ زہری ضحاک، ابراہیم نخعی، سدی، عطا خراسانی، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:367/1] ‏‏‏‏ لباس سے مراد سکون ہے، ربیع بن انس رحمہ اللہ لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:381/1] ‏‏‏‏ مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے؟ جس میں بیان ہو چکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھا پی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہو گا۔


سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھیتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آ کر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو سیدنا قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے۔ [صحیح بخاری:1915] ‏‏‏‏ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ [صحیح بخاری:4508

]
‏‏‏‏ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہو گیا تھا جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:2948] ‏‏‏‏ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر یہ واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ سیدنا قیس رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھا پی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب مباشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آ گئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا، [تفسیر ابن جریر الطبری:2943] ‏‏‏‏ اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہو گیا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:2949:حسن] ‏‏‏‏

«مَا کَتَبَ اللّٰہُ» سے مراد اولاد ہے، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہو سکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب [ِمنَ الفجر] ‏‏‏‏ کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہو گیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے۔ [صحیح بخاری:1917] ‏‏‏‏ مسند احمد میں ہے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے [ سیاہ اور سفید ] ‏‏‏‏ اپنے تکیے تلے رکھ لیے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:1916] ‏‏‏‏ مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آ جاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق و مغرب تک کی ہے، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے۔ [صحیح بخاری:4509] ‏‏‏‏ بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہو گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

بخاری شریف میں سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کا اسی طرح کا سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لیے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے [صحیح بخاری:1923] ‏‏‏‏ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے۔ [صحیح مسلم:1096] ‏‏‏‏ سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ [مسند احمد:44/3:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏ اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہیئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں۔ [صحیح بخاری:1921] ‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی۔ [مسند احمد:147/5:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏ یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے۔ [سنن ابوداود:2344، قال الشيخ الألباني:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏ مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہو گئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ رضی اللہ عنہم کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے۔ جیسے ابوبکر، عمر، علی، ابن مسعود، حذیفہ، ابوہریرہ ابن عمر، ابن عباس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے، جیسے محمد بن علی بن حسین، ابومجلز، ابراہیم نخعی، ابوالضحی، ابووائل رحمہ اللہ علیہم وغیرہ،

شاگردان ابن مسعود رضی اللہ عنہ، عطا، حسن، حاکم بن عیینہ، مجاہد، عروہ بن زبیر، ابو الشعشاء، جابر بن زیاد، اعمش اور جابر بن رشد رحمہ اللہ علیہم اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسناد اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کر دی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کر سکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے۔ [صحیح بخاری:623] ‏‏‏‏ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے۔ [مسند احمد:23/4:حسن] ‏‏‏‏ ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ رکو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے۔ [سنن ابوداود:2348، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏ ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے۔ [صحیح مسلم:1094] ‏‏‏‏ ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضاء لوٹانے کے لیے ہوتی [سنن ابوداود:2346، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو [ یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں ] ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:621] ‏‏‏‏ بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی۔

ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دوہیں ایک تو بھیڑیئے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:3003:جید] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے۔ حضرت عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے کہ روزہ دار کے لیے سب چیزیں حرام کر دیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کر دیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونوں روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.