تفسير ابن كثير



موسیٰ علیہ السلام کا بچپن ٭٭

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام دعائیں قبول ہوئیں اور فرما دیا گیا کہ تمہاری درخواست منظور ہے۔ اس احسان کے ساتھ ہی اور احسان کا بھی ذکر کر دیا گیا کہ ہم نے تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی بڑا احسان کیا ہے۔ پھر اس واقعہ کو مختصر طور پر یاد دلایا کہ ہم نے تیرے بچپن کے وقت تیری ماں کی طرف وحی بھیجی جس کا ذکر اب تم سے ہو رہا ہے۔ تم اس وقت دودھ پیتے بچے تھے، تمہاری والدہ کو فرعون اور فرعونیوں کا کھٹکا تھا کیونکہ اس سال وہ بنو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا۔

اس خوف کے مارے وہ ہر وقت کانپتی رہتی تھیں تو ہم نے وحی کی کہ ایک صندوق بنا لو، دودھ پلا کر بچے کو اس میں لٹا کر دریائے نیل میں اس صندوق کو چھوڑ دو چنانچہ وہ یہی کرتی رہیں۔ ایک رسی اس میں باندھ رکھی تھی جس کا ایک سرا اپنے مکان سے باندھ لیتی تھیں۔ ایک مرتبہ باندھ رہی تھیں جو رسی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور صندوق کو پانی کی موجیں بہا لے چلیں۔ اب تو کلیجہ تھام کر رہ گئیں اس قدر غمزدہ ہوئیں کہ صبر ناممکن تھا، شاید راز فاش کر دیتیں لیکن ہم نے دل مضبوط کر دیا۔

صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا آل فرعون نے اسے اٹھا لیا کہ جس غم سے وہ بچنا چاہتے تھے، جس صدمے سے وہ محفوظ رہنا چاہتے تھے، وہ ان کے سامنے آ جائے۔ جسکی شمع حیات کو بجھانے کے لیے وہ بےگناہ معصوموں کا قتل عام کر رہے تھے، وہ انہی کے تیل سے انہی کے ہاں روشن ہوا اور اللہ کے ارادے بیروک پورے ہو جائیں۔ ان کا دشمن انہی کے ہاتھوں پلے انہی کا کھائے ان کے ہاں تربیت پائے۔

خود فرعون اور اس کی اہلیہ محترمہ نے جب بچے کو دیکھا، رگ رگ میں محبت سما گئی، لے کر پرورش کرنے لگے۔ آنکھوں کا تارا سمجھنے لگے شاہزادوں کی طرح ناز و نعمت سے پلنے لگے شاہی دربار میں رہنے لگے۔

اللہ نے اپنی محبت تجھ پر ڈال دی گو فرعون تیرا دشمن تھا لیکن رب کی بات کون بدلے؟ اللہ کے ارادے کو کون ٹالے؟ فرعون پر ہی کیا منحصر ہے، جو دیکھتا آپ کا والہ و شیدا بن جاتا۔ یہ اس لیے تھا کہ تیری پرورش میری نگاہ کے سامنے ہو، شاہی خوراکیں کھا عزت و وقعت کے ساتھ رہ۔

فرعون والوں نے صندوقچہ اٹھا لیا کھولا بچے کو دیکھا، پالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کسی دایہ کا دودھ دباتے ہی نہیں بلکہ منہ میں ہی نہیں لیتے۔ بہن جو صندوق کو دیکھتی بھالتی کنارے کنارے آ رہی تھی وہ بھی موقعہ پر پہنچ گئیں، کہنے لگیں کہ آپ اگر اس کی پرورش کی تمنا کرتے ہیں اور معقول اجرت بھی دیتے ہیں تو میں ایک گھرانہ بتاؤں جو اسے محبت سے پالے اور خیر خواہانہ برتاؤ کرے۔ سب نے کہا ہم تیار ہیں۔

آپ انہیں لیے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچیں، جب بچہ ان کی گود میں ڈال دیا گیا، آپ نے جھٹ سے منہ لگا دودھ پینا شروع کیا۔ جس سے فرعون کے ہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا گیا۔ تنخواہ مقرر ہو گئی، اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتیں اور تنخواہ اور انعام بھی اور عزت و اکرام بھی پاتیں۔ دنیا بھی ملے دین بھی بڑھے۔

اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے کام کو کرے اور نیک نیتی سے کرے، اس کی مثال ام موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے۔

پس یہ بھی ہماری کرم فرمائی ہے کہ ہم نے تجھے تیری ماں کی گود میں واپس کیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم و رنج جاتا رہے۔ پھر تمہارے ہاتھ سے ایک فرعونی قبطی مار ڈالا گیا تو بھی ہم نے تمہیں بچا لیا، فرعونیوں نے تمہارے قتل کا ارادہ کر لیا تھا، راز فاش ہو چکا تھا۔

تمہیں یہاں سے نجات دی تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ مدین کے کنوئیں پر جا کر تم نے دم لیا۔ وہیں ہمارے ایک نیک بندے نے تمہیں بشارت سنائی کہ اب کوئی خوف نہیں ان ظالموں سے تم نے نجات پا لی۔ تجھے ہم نے بطور آزمائش اور بھی بہت سے فتنوں میں ڈالا۔

سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا اب تو دن ڈوبنے کو ہے واقعات زیادہ ہیں پھر سہی۔ چنانچہ میں نے دوسری صبح پھر سوال کیا تو آپ نے فرمایا سنو! فرعون کے دربار میں ایک دن اس بات کا ذکر چھڑا کہ اللہ کا وعدہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے یہ تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ ہوں گے۔

چنانچہ بنو اسرائیل اس کے آج تک منتظر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مصر کی سلطنت پھر ان میں جائے گی۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ یہ وعدہ یوسف علیہ السلام کی بابت تھا لیکن ان کی وفات تک جب کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو وہ اب عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ان میں اپنے ایک پیغمبر کو بھیجے گا جن کے ہاتھوں انہیں سلطنت بھی ملے گی اور ان کی قومی و مذہبی ترقی ہو گی۔ ً

یہ باتیں کر کے انہوں نے مجلس مشاورت قائم کی کہ اب کیا کیا جائے جس سے آئندہ کے اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔ آخر اس جلسے میں قرار داد منظور ہوئی کہ پولیس کا ایک محکمہ قائم کیا جائے جو شہر کا گشت لگاتا رہے اور بنی اسرائیل میں جو نرینہ اولاد ہو، اسے اسی وقت سرکار میں پیش کیا جائے اور ذبح کر دیا جائے۔

لیکن جب ایک مدت گزر گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ اس طرح تو بنی اسرائیل بالکل فنا ہو جائیں گے اور جو ذلیل خدمتیں ان سے لی جاتی ہیں، جو بیگاریں ان سے وصول ہو رہی ہیں، سب موقوف ہو جائیں گی، اس لیے اب تجویز ہوا کہ ایک سال ان کے بچوں کو چھوڑ دیا جائے اور ایک سال ان کے لڑکے قتل کر دیئے جائیں۔

اس طرح موجودہ بنی اسرائیلیوں کی تعداد بھی نہ بڑھے گی اور نہ اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں اپنی خدمت گزاری کے لیے بھی نہ مل سکیں۔ جتنے بڈھے دو سال میں مریں گے، اتنے بچے ایک سال میں پیدا ہو جائیں گے۔

جس سال قتل موقوف تھا، اس سال تو ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا، اس برس موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا؟ بے اندازہ تھی۔ ایک فتنہ تو یہ تھا۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہو گیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔

چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا، جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا۔

یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا، وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں، انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا۔ یہ صندوق بادشاہ ملکہ کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا۔

ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی، سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے، معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں۔

یہ دوسرا فتنہ تھا، آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں، اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا۔ اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو، میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.