تفسير ابن كثير



فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل کی نافرمانیاں ٭٭

اب یہاں سے آگے چلے تو دیکھا کہ ایک قوم اپنے بتوں کی مجاور بن کر بیٹھی ہے تو کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمارے لئے بھی کوئی معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئیے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ناراض ہو کر کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو، تم نے اتنی بڑی عبرتناک نشانیاں دیکھیں۔ ایسے اہم واقعات سنے لیکن اب تک نہ عبرت ہے نہ غیرت۔

یہاں سے آگے بڑھ کر ایک منزل پر آپ نے قیام کیا اور یہاں اپنے خلیفہ اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو بنا کر قوم سے فرمایا کہ میری واپسی تک ان کی فرمانبرداری کرتے رہنا میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں۔ تیس دن کا اس کا وعدہ ہے۔ چنانچہ قوم سے الگ ہو کر وعدے کی جگہ پہنچ کر تیس دن رات کے روزے پورے کر کے اللہ سے باتیں کرنے کا دھیان پیدا ہوا لیکن یہ سمجھ کر کہ روزوں کی وجہ سے منہ سے بھبکا نکل رہا ہو گا، تھوڑی سی گھاس لے کر آپ نے چبا لی۔

اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے دریافت فرمایا کہ ایسا کیوں کیا؟ آپ نے جواب دیا، صرف اس لیے کہ تجھ سے باتیں کرتے وقت میرا منہ خوشبودار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟ اب تو دس روزے اور رکھ پھر مجھ سے کلام کرنا۔ آپ نے روزے رکھنا شروع کر دیئے۔ قوم پر تیس دن جب گزر گئے اور حسب وعدہ موسیٰ علیہ السلام نہ لوٹے تو وہ غمگین رہنے لگے۔

ہارون علیہ السلام نے ان میں خطبہ کیا اور فرمایا کہ جب تم مصر سے چلے تھے تو قبطیوں کی رقمیں تم میں سے بعض پر ادھار تھیں اسی طرح ان کی امانتیں بھی تمہارے پاس رہ گئی ہیں، یہ ہم انہیں واپس تو کرنے کے نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ہماری ملکیت میں رہیں۔ اس لیے تم ایک گہرا گڑھا کھودو اور جو اسباب برتن بھانڈا زیور سونا چاندی وغیرہ ان کا تمہارے پاس ہے، سب اس میں ڈالو پھر آگ لگا دو۔

چنانچہ یہی کیا گیا۔ ان کے ساتھ سامری نامی ایک شخص تھا، یہ گائے بچھڑے پوجنے والوں میں سے تھا، بنی اسرائیل میں سے نہ تھا لیکن بوجہ پڑوسی ہونے کے اور فرعون کی قوم میں سے نہ ہونے کے یہ بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا، اس نے کسی نشان سے کچھ مٹھی میں اٹھا لیا تھا۔ ہارون علیہ السلام نے فرمایا تو بھی اسے ڈال دے، اس نے جواب دیا کہ یہ تو اس کے اثر سے ہے جو تمہیں دریا سے پار کرا لے گیا۔ خیر میں اسے ڈال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس سے وہ بن جائے جو میں چاہتا ہوں۔

آپ نے دعا کی اور اس نے اپنی مٹھی میں جو تھا اسے ڈال دیا اور کہا میں چاہتا ہوں اس کا ایک بچھڑا بن جائے۔ قدرت الٰہی سے اس گڑھے میں جو تھا، وہ ایک بچھڑے کی صورت میں ہو گیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اس میں روح نہ تھی لیکن ہوا اس کے پیچھے کے سوراخ سے جا کر منہ سے نکلتی تھی اس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی۔

بنو اسرائیل نے پوچھا سامری یہ کیا ہے؟ اس بے ایمان نے کہا، یہی تمہارا سب کا رب ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول گئے اور دوسری جگہ رب کی تلاش میں چلے گئے۔ اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے۔ ایک فرقے نے تو کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے، ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی۔

دوسری جماعت نے کہا، محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے، نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا۔ ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو! یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے؟ تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے۔

ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے؟ آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا، اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے۔ غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں۔ پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی، ان کے لیے استغفار کیا۔

اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میری رائے میں یہی بات آئی۔ آپ نے فرمایا، جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہہاتھ لگانا نہیں پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا۔

اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے، باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے توبہ کا دروازہ کھول دے، جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے۔

آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لیے چلے، وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ گریہ و زاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا، ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر۔

آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں۔ ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل دلی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا۔ ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کر دیا گیا تھا۔ نبی اللہ علیہ السلام کی اس آہ و زاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ و انجیل میں۔

کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی کہ یا الٰہی میں نے اپنی قوم کے لیے توبہ طلب کی، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں، پھر اللہ مجھے بھی تو اپنے اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا۔ رب العالمین نے فرمایا، سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے، آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں۔

چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے، انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے، جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا، وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا، انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کر لی پہاڑ ہٹ گیا۔

اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ علیہ السلام انہیں لے جانا چاہتے تھے، دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے، ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں، یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایت دے دی، وہ شہر سے نکل کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ، یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں، تم آگے تو بڑھو۔ ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے، یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا، خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

لیکن ان کے سمجھانے بجھانے، اللہ کے حکم ہو جانے اور موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں، ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں، موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔

اب تو موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا، آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا۔ چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا، اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے۔

اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا، کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے۔ ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہو گئیں، ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے، تھک کر قیام کر دیتے، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئلی ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا تھا، وہاں کوئی اور نہ تھا۔

اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بہت بگڑے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا، آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا، بتاؤ وہ بنی اسرائیلی شخص تھا یا فرعونی؟ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، بنی اسرائیلی سے اس فرعونی نے سنا، پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا [تفسیر ابن جریر الطبری:24131:ضعیف] ‏‏‏‏

یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں۔ یا تو آپ نے سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی علیہ السلام سے بھی یہی سنا ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.