تفسير ابن كثير



ہدایت کی وضاحت ٭٭

ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا۔

فرمان ہے: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ» [28-القصص:56] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا“۔

فرماتا ہے: «لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ» [2-البقرة:272] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں“۔

فرماتا ہے: «مَنْ يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ» [7-الأعراف:186] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں“۔

فرمایا: «مَنْ يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا» [18-الكهف:17] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز نہ اس کا کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد“۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» [42-الشورى:52] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے“۔

اور فرمایا: «إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ» [13-الرعد:7] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے“۔

اور جگہ فرمان ہے: «وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ» [41-فصلت:17] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر پسند کر لیا۔

فرماتا ہے: «وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ» [90-البلد:10] ‏‏‏‏ ”ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں“ یعنی بھلائی اور برائی کی۔

تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ «وقوی» ہے «وقایت» سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ «خل الذنوب صغیرھا .... وکبیرھا ذاک التقی .... واصنع کماش فوق ارض .... الشوک یحدذر مایری .... لا تحقرن صغیرۃ .... ان الجبال من الحصی» یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔

ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ۔ [سنن ابن ماجہ:1857،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.