تفسير ابن كثير



مسئلہ ٭٭

امام ابوحنیفہ، مالک ثوری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے۔‏‏‏‏ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو۔

چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ [سنن ابن ماجہ:3123،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے ۔ [سنن ترمذي:1507،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

امام شافعی رحمہ اللہ اور حضرت مام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب و فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال و زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں ۔ [سنن ابن ماجہ:1789،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ بھی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہو گیا۔ ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے پڑوس میں رہتا تھا۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتداء کریں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا۔ اس لیے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے۔

ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا: ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور «عَتِيرَة» ہے جانتے ہو «عَتِيرَة» کیا ہے؟ وہی جسے تم «رَّجَبِيَّة» کہتے ہو ۔ [سنن ابوداود:2788،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔

سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کر دیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے، اوروں کو بھی کھلاتے۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کر لیا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ [سنن ترمذي:1505،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ [صحیح بخاری:7210] ‏‏‏‏

اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر «مُسِنَّة» بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کر سکتے ہو ۔ [سنن ابوداود:2788،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

زہری رحمہ اللہ تو کہتے ہیں کہ «الْجَذَع» یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں لگ جائے۔ اور گائے جب دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہو گیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو۔

ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں۔ جب تک کہ اس کی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.