تفسير ابن كثير



اللہ کی راہ میں خرچ کرو ٭٭

پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم۔ [صحیح مسلم:758] ‏‏‏‏، اس آیت کو سن کر سیدنا ابوالاصداح انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئیے، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے [بیهقی فی شعب الایمان3452: ضعیف] ‏‏‏‏

قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے۔ پھر فرمایا کہ ” اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا“ جیسے اور جگہ ہے آیت «مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ» [ 2۔ البقرہ: 261 ] ‏‏‏‏، یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے [ مسند احمد296/2 ضعیف ] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث غریب ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا، آپ رضی اللہ عنہ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ لوں، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا، وہاں آپ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں؟، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت «وفَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ» [ 9۔ التوبہ: 38 ] ‏‏‏‏ یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے۔ اللہ کی قسم!میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے [میزان 2938 ضعیف] ‏‏‏‏۔

اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں «لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ» پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے [سنن ترمذي:3428، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏، ابن ابی حاتم میں ہے آیت «مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ» ؎ [ البقرہ: 261 ] ‏‏‏‏، کی آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ میری امت کو اور زیادہ زیادتی عطا فرما آیت پس «من الذی» الخ کی جب آیت اتری تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی تو «إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ» [ 39-الزمر: 10 ] ‏‏‏‏ کی آیت اتری، [صحیح ابن حبان4648سخت ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» [ 112-الإخلاص: 1 ] ‏‏‏‏، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں، کیا میں اسے سچ مان لوں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت «مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً» [ البقرہ: 245 ] ‏‏‏‏ فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.