تفسير ابن كثير



تقویٰ کی ہدایت ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنے تقویٰ کی ہدایت کرتا ہے ان سے فرماتا ہے کہ ” اس طرح وہ اس کی عبادت کریں کہ گویا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بات بالکل صاف، سیدھی، سچی، اچھی بولا کریں، جب وہ دل میں تقویٰ، زبان پر سچائی اختیار کر لیں گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں اعمال صالحہ کی توفیق دے گا اور ان کے تمام اگلے گناہ معاف فرما دے گا بلکہ آئندہ کیلئے بھی انہیں استغفار کی توفیق دے گا تاکہ گناہ باقی نہ رہیں۔ اللہ رسول کے فرمانبردار اور سچے کامیاب ہیں جہنم سے دور اور جنت سے سرفراز ہیں “۔

ایک دن ظہر کی نماز کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور سیدھی بات بولنے کا حکم دوں۔ پھر عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر بھی یہی فرمایا ۔ [مسند احمد:391/4:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ابی الدنیا کی کتاب التقویٰ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ منبر پر ہر خطبے میں یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ [میزان:5119:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس کی سند غریب ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کی عزت کریں اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔‏‏‏‏

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں قول سدید «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» ہے۔ خباب رحمہ اللہ فرماتے ہیں سچی بات قول سدید ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر سیدھی بات قول سدید میں داخل ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.