تفسير ابن كثير



فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان ٭٭

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللَّـهِ» کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل] ‏‏‏‏

ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللَّـهِ» عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّـهِ» کیا ہے؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «الله» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو ۔ [الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل] ‏‏‏‏

ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل] ‏‏‏‏ لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری۔ وہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھے، اس کے بھی انیس حروف ہیں، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔

اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں آپ نے فرمایا:میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» پڑھا تھا ۔ [صحیح بخاری:799] ‏‏‏‏ اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے ۔ [سنن ابوداود:4982،قال الشيخ الألباني:صحيح] ‏‏‏‏

نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ کر «بِسْمِ اللَّـهِ» کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا ۔ [النسائي في عمل اليوم والليه:559:صحيح بالشواهد‏‏‏‏]

اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ لینا مستحب ہے۔

خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنی چاہیئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے ۔ [سنن ابن ماجه:1894،قال الشيخ الألباني:ضعيف‏‏‏‏]

بیت الخلاء (‏‏‏‏پاخانہ)‏‏‏‏‏‏‏‏ میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے ۔ [سنن ترمذي:606،قال الشيخ الألباني: صحيح] ‏‏‏‏ حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔

مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا ۔ [سنن ابن ماجہ:399،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔

جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔

امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی۔ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی مستحب ہے۔

صحیح مسلم (‏‏‏‏و بخاری)‏‏‏‏‏‏‏‏ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (‏‏‏‏جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے) کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو ۔ [صحیح بخاری:5376] ‏‏‏‏ بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔

بیوی سے ملنے (‏‏‏‏جماع)‏‏‏‏‏‏‏‏ کے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی چاہیئے۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا۔ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ [صحیح بخاری:141] ‏‏‏‏

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللَّـهِ اِبْتِدَائِي» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔

قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ» [11-هود:41] ‏‏‏‏ اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللَّـهِ» اور «ابتدات بِسْمِ اللَّـهِ» ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» الخ ہے۔

دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا: اے محمد! کہئے «أَسْتَعِيذ بِاَللَّهِ السَّمِيع الْعَلِيم مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.