تفسير ابن كثير



منافقین کی ایک اور پہچان ٭٭

یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لیے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑ جاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے۔ ظلمات سے مراد شک، کفرو نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے۔

جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت «يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ» [ 63۔ المنافقون: 4 ] ‏‏‏‏ یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ «وَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ» [ 9-التوبة: 56، 57 ] ‏‏‏‏ یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پا لیں تو یقیناً اس میں سمٹ کر گھس جائیں۔

بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں، یہ بچ نہیں سکتے۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت «هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي تَكْذِيبٍ وَاللَّـهُ مِن وَرَائِهِم مُّحِيطٌ» [ 85۔ البروج: 20-17 ] ‏‏‏‏ یعنی کیا تمہیں لشکر کی، فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں، بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ان کا ضعف ایمان ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کر دیں گی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:349/1] ‏‏‏‏ جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:349/1] ‏‏‏‏

جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ» [ 22۔ الحج: 11 ] ‏‏‏‏ یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہو جائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھر گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:75/1] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بے نصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت «يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ» [ 57۔ الحدید: 13 ] ‏‏‏‏ یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا» [ 57۔ الحدید: 12 ] ‏‏‏‏ یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہو گا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہو گا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے۔ [66-التحريم:8] ‏‏‏‏ ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.