تفسير ابن كثير



باب

پھر فرماتا ہے جو بیعت کے بعد عہد شکنی کرے اس کا وبال خود اسی پر ہو گا، اللہ کا وہ کچھ نہ بگاڑے گا اور جو اپنی بیعت کو نبھا جائے وہ بڑا ثواب پائے گا یہاں جس بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت الرضوان ہے جو ایک ببول کے درخت تلے حدیبیہ کے میدان میں ہوئی تھی اس دن بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد تیرہ سو، چودہ سو یا پندرہ سو تھی ٹھیک یہ ہے کہ چودہ سو تھی اس واقعہ کی حدیثیں ملاحظہ ہوں۔

بخاری شریف میں ہے ہم اس دن چودہ سو تھے [سنن ترمذي:961،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے آپ نے اس پانی میں ہاتھ رکھا پس آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس پانی کی سوتیں ابلنے لگیں۔ [صحیح بخاری:4840] ‏‏‏‏

یہ حدیث مختصر ہے اس حدیث سے جس میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سخت پیاسے ہوئے، پانی تھا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا انہوں نے جا کر حدیبیہ کے کنویں میں اسے گاڑ دیا اب تو پانی جوش کے ساتھ ابلنے لگا یہاں تک کہ سب کو کافی ہو گیا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس روز تم کتنے تھے؟ فرمایا: چودہ سو لیکن اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی اس قدر تھا کہ سب کو کافی ہو جاتا ۔ [صحیح بخاری:4840] ‏‏‏‏

بخاری کی روایت میں ہے کہ پندرہ سو تھے [صحیح بخاری:25] ‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں پندرہ سو بھی مروی ہے۔ [صحیح مسلم:80] ‏‏‏‏

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فی الواقع تھے تو پندرہ سو اور یہی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پہلا قول تھا پھر آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا اور چودہ سو فرمانے لگے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سوا پندرہ سو تھے۔ [صحیح بخاری:4153] ‏‏‏‏

لیکن آپ سے مشہور روایت چودہ سو کی ہے اکثر راویوں اور اکثر سیرت نویس بزرگوں کا یہی قول ہے کہ چودہ سو تھے ایک روایت میں ہے اصحاب شجرہ چودہ سو تھے اور اس دن آٹھواں حصہ مہاجرین کا مسلمان ہوا۔ [صحیح بخاری:4155] ‏‏‏‏

سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حدیبیہ والے سال رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ سات سو صحابہ کو لے کر زیارت بیت اللہ کے ارادے سے مدینہ سے چلے، قربانی کے ستر اونٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے، ہر دس اشخاص کی طرف سے ایک اونٹ، ہاں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ کے ساتھی اس دن چودہ سو تھے۔ ابن اسحاق اسی طرح کہتے ہیں اور یہ ان کے اوہام میں شمار ہے۔ بخاری و مسلم میں جو محفوظ ہے وہ یہ کہ ایک ہزار کئی سو تھے جیسے ابھی آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ۔ اس بیعت کا سبب سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا کہ آپ کو مکہ بھیج کر قریش کے سرداروں سے کہلوائیں کہ آپ لڑائی بھڑائی کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ بیت اللہ شریف کے عمرے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے خیال سے تو اس کام کے لیے آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں کیونکہ مکہ میں میرے خاندان میں سے کوئی نہیں یعنی بنوعدی بن کعب کا قبیلہ نہیں جو میری حمایت کرے آپ جانتے ہیں کہ قریش سے میں نے کتنی کچھ اور کیا کچھ دشمنی کی ہے اور وہ مجھ سے وہ کس قدر خار کھائے ہوئے ہیں مجھے تو وہ زندہ ہی نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرما کر سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو ابوسفیان اور سرداران قریش کے پاس بھیجا آپ جا ہی رہے تھے کہ راستے میں یا مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص مل گیا اور اس نے آپ کو اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا اپنی امان میں انہیں اپنے ساتھ مکہ میں لے گیا آپ قریش کے بڑوں کے پاس گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا چاہیں تو کر لیجئے آپ نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے میں طواف کر لوں، اب ان لوگوں نے سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو روک لیا، ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس وحشت اثر خبر نے مسلمانوں کو اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا صدمہ پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تو ہم بغیر فیصلہ کئے یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور ان سے بیعت لی ایک درخت تلے یہ بیعت الرضوان ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں یہ بیعت موت پر لی تھی یعنی لڑتے لڑتے مر جائیں گے۔ لیکن سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس اقرار پر کہ ہم لڑائی سے بھاگیں گے نہیں، جتنے مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم اس میدان میں تھے سب نے آپ سے بہ رضا مندی بیعت کی سوائے جد بن قیس کے جو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص تھا یہ اپنی اونٹنی کی آڑ میں چھپ گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ غلط تھی۔ [سیرۃ ابن ھشام:315/2] ‏‏‏‏

اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کو آپ کے پاس بھیجا یہ لوگ ابھی یہیں تھے کہ بعض مشرکین میں سے کچھ تیز کلامی شروع ہو گئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنگ باری اور تیر باری بھی ہوئی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے ہو گئے۔

ادھر ان لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کو روک لیا، ادھر یہ لوگ رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کر دی کہ روح القدس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیعت کا حکم دے گئے، آؤ اللہ کا نام لے کر بیعت کر جاؤ۔

اب کیا تھا مسلمان بے تابانہ دوڑے ہوئے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت درخت تلے تھے، سب نے بیعت کی اس بات پر کہ وہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں میدان سے منہ موڑنے کا نام نہ لیں گے اس سے مشرکین کانپ اٹھے اور جتنے مسلمان ان کے پاس تھے سب کو چھوڑ دیا اور صلح کی درخواست کرنے لگے۔ [دلائل النبوۃ للبیہقی:133/4:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

بیہقی میں ہے کہ بیعت کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الٰہی! عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام کو گئے ہوئے ہیں پس آپ نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا گویا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔

پس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ان کے اپنے ہاتھ سے بہت افضل تھا۔ (‏‏‏‏ضعیف: اس میں حکم بن عبدالملک ضعیف ہے)

اس بیعت میں سب سے پہل کرنے والے سیدنا ابوسنان اسدی رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے سب سے آگے بڑھ کر فرمایا: اے اللہ کے رسول ! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کر لوں آپ نے فرمایا: کس بات پر بیعت کرتے ہو؟ جواب دیا جو آپ کے دل میں ہو اس پر۔ [دلائل النبوۃ للبیہقی:137/4:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ آپ کے والد کا نام وہب تھا۔

صحیح بخاری میں نافع سے مروی ہے کہ لوگ کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لڑکے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا دراصل واقعہ یوں نہیں۔ بات یہ ہے کہ حدیبیہ والے سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری کے پاس بھیجا کہ جا کر اپنے گھوڑے لے آؤ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ تھا یہ اپنے طور پوشیدگی سے لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے تو یہ بیعت سے مشرف ہوئے پھر گھوڑا لینے گئے اور گھوڑا لا کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں اب سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اس بنا پر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کا اسلام باپ سے پہلے کا ہے ۔ [صحیح بخاری:4187] ‏‏‏‏

بخاری کی دوسری روایت میں ہے لوگ الگ الگ درختوں تلے آرام کر رہے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ہر ایک کی نگاہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں اور لوگ آپ کو گھیرے ہوئے ہیں، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جاؤ ذرا دیکھو تو کیا ہو رہا ہے؟ یہ آئے دیکھا کہ بیعت ہو رہی ہے تو بیعت کر لی، پھر جا کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر کی چنانچہ آپ بھی فوراً آئے اور بیعت سے مشرف ہوئے ۔ [صحیح بخاری:4187] ‏‏‏‏

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم نے بیعت کی ہے اس وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور آپ ایک ببول کے درخت تلے تھے ۔ [صحیح مسلم:1856] ‏‏‏‏

سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو آپ کے سر سے اوپر کو اٹھا کر میں تھامے ہوئے تھا ہم نے آپ سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ نہ بھاگنے پر ۔ [صحیح مسلم:1858-76] ‏‏‏‏

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے مرنے پر بیعت کی تھی ۔ [صحیح بخاری:2960] ‏‏‏‏

آپ فرماتے ہیں ایک مرتبہ بیعت کر کے میں ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: سلمہ! تم بیعت نہیں کرتے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں نے تو بیعت کر لی، آپ نے فرمایا: خیر آؤ، بیعت کرو، چنانچہ میں نے قریب جا کر پھر بیعت کی ۔ [صحیح بخاری:7208] ‏‏‏‏

حدیبیہ کا وہ کنواں جس کا ذکر اوپر گزرا صرف اتنے پانی کا تھا کہ پچاس بکریاں بھی آسودہ نہ ہو سکیں، آپ فرماتے ہیں کہ دوبارہ بیعت کر لینے کے بعد آپ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں بے سپر ہوں تو آپ نے مجھے ایک ڈھال عنایت فرمائی۔ پھر لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی پھر آخری مرتبہ میری طرف دیکھ کر فرمایا: سلمہ! تم بیعت نہیں کرتے؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! پہلی مرتبہ جن لوگوں نے بیعت کی میں نے ان کے ساتھ ہی بیعت کی تھی پھر بیچ میں دوبارہ بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اچھا پھر سہی چنانچہ اس آخری جماعت کے ساتھ بھی میں نے بیعت کی آپ نے پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا: سلمہ! تمہیں ہم نے جو ڈھال دی تھی وہ کیا ہوئی؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! عامر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے پاس دشمن کا وار روکنے والی کوئی چیز نہیں میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی۔ تو آپ ہنسے اور فرمایا: تم بھی اس شخص کی طرح ہو جس نے اللہ سے دعا کی کہ اے الٰہی میرے پاس کسی ایسے کو بھیج دے جو مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو۔‏‏‏‏

پھر اہل مکہ سے صلح کی تحریک کی آمدورفت ہوئی اور صلح ہو گئی، میں سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا خادم تھا ان کے گھوڑے کی اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ مجھے کھانے کو دے دیتے تھے، میں تو اپنا گھربار بال بچے مال دولت سب راہ اللہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے چلا آیا تھا۔

جب صلح ہو چکی ادھر کے لوگ ادھر اور ادھر کے ادھر آنے لگے، تو میں ایک درخت تلے جا کر کانٹے وغیرہ ہٹا کر اس کی جڑ سے لگ کر سو گیا، اچانک مشرکین مکہ میں سے چار شخص وہیں آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات سے آپس میں باتیں کرنے لگے، مجھے بڑا برا معلوم ہوا، میں وہاں سے اٹھ کر دوسرے درخت تلے چلا گیا۔

ان لوگوں نے اپنے ہتھیار اتارے درخت پر لٹکا کر وہاں لیٹ گئے تھوڑی دیر گزری ہو گی جو میں نے سنا کہ وادی کے نیچے کے حصہ سے کوئی منادی ندا کر رہا ہے کہ اے مہاجر بھائیو سیدنا ابن زنیم رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے۔ میں نے جھٹ سے تلوار تان لی اور اسی درخت تلے گیا جہاں چاروں سوئے ہوئے تھے، جاتے ہی پہلے تو ان کے ہتھیار قبضے میں کئے اور اپنے ایک ہاتھ میں انہیں دبا کر دوسرے ہاتھ سے تلوار تول کر ان سے کہا: سنو! اس اللہ کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی ہے تم میں سے جس نے بھی سر اٹھایا میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔

جب وہ اسے مان چکے میں نے کہا: اٹھو اور میرے آگے آگے چلو چنانچہ ان چاروں کو لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ادھر میرے چچا سیدنا عامر رضی اللہ عنہ بھی مکرز نامی عبلات کے ایک مشرک کو گرفتار کر کے لائے اور بھی اسی طرح کے ستر مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تھے۔

آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: انہیں چھوڑ دو، برائی کی ابتداء بھی انہی کے سر رہے اور پھر اس کی تکرار کے ذمہ دار بھی یہی رہیں۔‏‏‏‏ چنانچہ ان سب کو رہا کر دیا گیا

اسی کا بیان آیت «وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا» [48-الفتح:24] ‏‏‏‏ میں ہے۔ [صحیح مسلم:1807] ‏‏‏‏

سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے والد بھی اس موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ کا بیان ہے کہ اگلے سال جب ہم حج کو گئے تو اس درخت کی جگہ ہم پر پوشیدہ رہی ہم معلوم نہ کر سکے کہ کس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہم نے بیعت کی تھی اب اگر تم پر یہ پوشیدگی کھل گئی ہو تو تم جانو۔ [صحیح بخاری:4162] ‏‏‏‏

ایک روایت میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج زمین پر جتنے ہیں ان سب پر افضل تم لوگ ہو۔‏‏‏‏ آپ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا ۔ [صحیح بخاری:4154] ‏‏‏‏

سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جگہ کی تعین میں بڑا اختلاف ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے اس بیعت میں شرکت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ۔ [سنن ابوداود:4653،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن لوگوں نے اس درخت تلے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے سب جنت میں جائیں گے مگر سرخ اونٹ والا، ہم جلدی دوڑے دیکھا تو ایک شخص اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں تھا ہم نے کہا چل بیعت کر اس نے جواب دیا کہ بیعت سے زیادہ نفع تو اس میں ہے کہ میں اپنا گمشدہ اونٹ پا لوں ۔ [سنن ترمذي:3863،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو ثنیۃ المرار پر چڑھ جائے اس سے وہ دور ہو جائے گا جو بنی اسرائیل سے دور ہوا، پس سب سے پہلے قبیلہ خزرج کے ایک صحابی اس پر چڑھ گئے پھر تو اور لوگ بھی پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب بخشے جاؤ گے مگر سرخ اونٹ والا۔‏‏‏‏ ہم اس کے پاس آئے اور اس سے کہا تیرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار طلب کریں تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے میرا اونٹ مل جائے تو میں زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے کہ تمہارے صاحب میرے لیے استغفار کریں یہ شخص اپنا گمشدہ اونٹ ڈھونڈ رہا تھا ۔ [صحیح مسلم:2785] ‏‏‏‏

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ سنا کہ اس بیعت والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے تو کہا: ہاں ہوں گے، آپ نے انہیں روک دیا تو مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا» [19-مريم:71] ‏‏‏‏ پڑھی یعنی ” تم میں سے ہر شخص کو اس پر وارد ہونا ہے “، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد ہی فرمان باری ہے «ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا» [19-مريم:72] ‏‏‏‏ ” یعنی پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا دیں گے ۔ [صحیح مسلم:2496] ‏‏‏‏

سیدنا حاطب بن ابوبلتعہ رضی اللہ عنہ کے غلام سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے، آپ نے فرمایا: تو جھوٹا ہے، وہ جہنمی نہیں، وہ بدر میں اور حدیبیہ میں موجود رہا ۔ [صحیح مسلم:2495-162] ‏‏‏‏

ان بزرگوں کی ثنا بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کے ہاتھ ہیں، اس بیعت کو توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرنے والا ہے اور اسے پورا کرنے والا بڑے اجر کا مستحق ہے۔

جیسے فرمایا «لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا» [48-الفتح:18] ‏‏‏‏ ” یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہو گیا جبکہ انہوں نے درخت تلے تجھ سے بیعت کی ان کے دلی ارادوں کو اس نے جان لیا پھر ان پر دلجمعی نازل فرمائی اور قریب کی فتح سے انہیں سرفراز فرمایا “۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.