تفسير ابن كثير



استعفار اور لا الہ الا اللہ ٭٭

مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «‏‏‏‏لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ» کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار پر مداو مت کرو ابلیس گناہوں سے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی ہلاکت «‏‏‏‏لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ» اور استغفار سے ہے،

یہ حدیث دیکھ کر ابلیس نے لوگوں کو خواہش پرستی پر ڈال دیا پس وہ اپنے آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں حالانکہ ہلاکت میں ہوتے ہیں۔ [مسند ابویعلیٰ:136:ضعیف جداً] ‏‏‏‏ لیکن اس حدیث کے دو راوی ضعیف ہیں۔

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں بنی آدم کو ان کے آخری دم تک بہکاتا رہوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میرے جلال اور میری عزت کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا [مسند احمد:29/3:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند بزاز میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھ سے گناہ ہو گیا آپ نے فرمایا پھر استغفار کر اس نے کہا مجھ سے اور گناہ ہوا فرمایا استغفار کئے جا، یہاں تک کہ شیطان تھک جائے [بزار فی کشف الاستار:3249:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏ پھر فرمایا گناہ کو بخشنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قیدی آیا اور کہنے لگایا اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توبہ نہیں کرتا [ یعنی اللہ میں تیری ہی بخشش چاہتا ہوں ] ‏‏‏‏ آپ نے فرمایا اس نے حق حقدار کو پہنچایا۔ [مسند احمد:435/3:ضعیف] ‏‏‏‏ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے اگر کئی مرتبہ گناہ ہو جائے تو کئی مرتبہ استغفار کرتے ہیں،

مسند ابویعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اور اڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے اگرچہ [ بالفرض ] ‏‏‏‏ اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہو جائے۔ [سنن ابوداود:1514،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ وہ جانتے ہوں یعنی اس بات کو کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ» [9-التوبة:104] ‏‏‏‏ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:110] ‏‏‏‏، جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیان فرمایا لوگو! تم اوروں پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا لوگو! تم دوسروں کی خطائیں معاف کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخشے گا باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے [مسند احمد:165/2:صحیح] ‏‏‏‏

گناہ پر جم جانے والوں کی ہلاکت ہے پھر فرمایا ان کاموں کے بدلے ان کی جزا مغفرت ہے اور طرح طرح کی بہتی نہروں والی جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑے اچھے اعمال ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.