تفسير ابن كثير



اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لیے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی، سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ما» صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت «فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ» [5-المائدة:13] ‏‏‏‏، میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے «عَمَّا قَلِيلٍ» [23-المؤمنون:40] ‏‏‏‏ میں اسی طرح یہاں ہے،

یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لیے نرم دل ہوا ہے، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے۔

یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [9-التوبة:129] ‏‏‏‏، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں،

مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابوامامہ! بعض مومن وہ ہیں جن کے لیے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، [مسند احمد:217/5:حسن] ‏‏‏‏ «فَظًّا» سے مراد یہاں سخت کلام ہے۔ کیونکہ اس کے بعد «غَلِيظَ الْقَلْبِ» کا لفظ ہے، یعنی سخت دل، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لیے محبت اور نرمی عطا فرمائی، اور تاکہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام، سخت دل، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ در گزر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں، [صحیح بخاری:4838] ‏‏‏‏

ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا۔ [ابن عدی فی الکامل:15/2:ضعیف] ‏‏‏‏

چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگزر کر، ان کے لیے استغفار کر، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرتے تھے،، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ لیا اور جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک الغماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر، جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے، [صحیح بخاری:3952] ‏‏‏‏

اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو؟ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا رضی اللہ عنہ باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہیئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے؟ تو سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی۔

اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں؟ تو صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانوں مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ! میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے [صحیح بخاری:4757] ‏‏‏‏

اور آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جدائی کے لیے سیدنا علی اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے مشورہ لیا، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے،

اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کرنے کا حکم ہے۔ [مستدرک حاکم:70/3:صحیح] ‏‏‏‏

[ حاکم ] ‏‏‏‏ یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں [ضعیف] ‏‏‏‏

[ کلبی ] ‏‏‏‏ مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا، [مسند احمد:227/4:ضعیف جداً] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا [الدار المنشور للسیوطی:160/2] ‏‏‏‏ [ ابن مردویہ ] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہو، ابوداؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے

امام ترمذی رضی اللہ عنہ اسے حسن کہتے ہیں، [سنن ابوداود:5128،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہیئے بھلی بات کا مشورہ دے [سنن ابن ماجہ:3747،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ [ ابن ماجہ ] ‏‏‏‏

پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گزرا ہے کہ آیت «وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ» [3-آل عمران:126] ‏‏‏‏ یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہیئے۔

پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں نے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری [ ترمذی ] ‏‏‏‏ [سنن ابوداود:3971،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت «وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ» [3-آل عمران:161] ‏‏‏‏ اتری، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو،

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.