تفسير ابن كثير



نجاشی کا دربار

مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے۔ ہم میں عبداللہ بن مسعود، جعفر، عبداللہ بن رواحہ، عثمان بن مطعون، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی تھے۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لیے تحفے بھی بھیجے، جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے، پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری قوم نے ہمیں اس لیے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیجئیے۔

نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں، حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو، چنانچہ یہ مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت جعفر رضی اللہ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے، یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے، پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول ہماری طرف بھیجا اور اس رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں۔

اب عمرو بن العاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور بادشاہ کو بھڑکانے کے لیے وہ بیچ میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مختلف ہیں، اس پر بادشاہ نے پوچھا: بتاؤ تم عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں، روح اللہ ہیں، جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں، جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا، نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا۔ بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو ان کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں۔

اے جماعت مہاجرین! تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو، میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں، یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو، اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹ سے میں آزاد ہوتا تو میں یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اٹھاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا، اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے۔

ان مہاجرین کرام میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو جلد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے، جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی۔ [مسند احمد:461/1:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ پورا واقعہ سیدنا جعفر اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [مسند احمد:201/1:ضعیف] ‏‏‏‏

تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لیے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ ہو۔

ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی شہرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت دعا خلیل اللہ اور نوید مسیح کی طرف کی ہے، اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لیے تھا کہ اہل مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع شہرت کا باعث یہ خواب تھا، اللہ تعالیٰ آپ پر بےشمار درود و رحمت بھیجے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے۔“



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.