تفسير ابن كثير



جمعہ کی پہلی آذان ٭٭

جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی، اس سے پہلے کی اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لیے بیٹھ جاتا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی، زیادہ کی، اس مکان کا نام زورا تھا [صحیح بخاری:912] ‏‏‏‏

مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا۔ مکحول رحمہ اللہ سے ابن ابی حاتم میں رویات ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی، جب نماز کھڑی ہونے لگے، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لیے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں، غلاموں اور بچوں کو نہیں، مسافر، مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.