تفسير ابن كثير



خالد رضی اللہ عنہ ٭٭

ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں خالد رضی اللہ عنہ کو بھیج کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثلل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا، بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی، کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہو گئے اور جھگڑا ہونے لگا، جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن ابی کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے، ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں، تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے، اب تو بے کار ہوگئے ہو، نفع کا خیال، نہ نقصان کا، تم نے ہی ان جلالیب کو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے۔ اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا: میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہو جائیں گے، یہ باتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سن لیں اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا بیٹھ جاؤ۔‏‏‏‏ اتنے میں اسید بن حفیر رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہوئے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہیں نے بھی یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا۔

وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آ گئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثلل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یقیناً، میں اس کا سر تن سے جدا کر دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالتا تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہو جاتے۔ میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو بھی بیدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے۔‏‏‏‏

اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں۔

سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو پکے سچے مسلمان تھے، اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی! قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں (‏‏‏‏لیکن میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں)۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں جوش انتقام میں، میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہو گئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:34179:مرسل] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.