تفسير ابن كثير



دوبارہ بٹھایا جانا ٭٭

پھر بیان ہوتا ہے کہ ” کافر مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو، تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا؟ “

اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ” ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے، ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں، میرا فرض صرف تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا “۔

پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ ” جب قیامت قائم ہونے لگے گی اور کفار اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اب وہ قریب آ گئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے، گو دیر سویر سے آئے، جب اسے آیا ہوا پا لیں گے، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھنے لگیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی، آثار سب سامنے ہوں گے “، اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے ” جس کی تم جلدی مچا رہے تھے “۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.