تفسير ابن كثير



مصائب سے نجات دلانے والی دعا، نظر، فال اور شگون ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے نبی! اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا “۔ اس سے مراد یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا، یعنی آپ علیہ السلام کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور «‏‏‏‏لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ» [21-الأنبياء:87] ‏‏‏‏ پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا، اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے۔

جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ «‏‏‏‏فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ» [21-الأنبياء:88] ‏‏‏‏ ” ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں “ اور فرماتا ہے کہ «فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ» [37-الصافات:143-144] ‏‏‏‏ ” اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے “۔

یہاں بھی فرمان ہے کہ ” جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا “، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ” کیا تم نے اسے پہچانا نہیں؟ “ فرشتوں نے عرض کیا نہیں، جناب باری نے فرمایا: ” یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے “۔ فرشتوں نے کہا پروردگار! پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ ہر روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” سچ ہے “، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین! ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما، چنانچہ فرمان باری ہوا کہ ” اے مچھلی! تو انہیں اگل دے “ اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا۔

یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ” اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا “۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یونس بن متی سے افضل بتائے ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے، [صحیح بخاری:3395] ‏‏‏‏

اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گزرتے “، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے۔

ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے [سنن ابوداود:3889،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے [سنن ابن ماجہ:3513،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اور صحیح مسلم میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے، [صحیح مسلم:200] ‏‏‏‏ اور بخاری اور ترمذی میں بھی ہے۔ ایک غریب حدیث ابویعلیٰ میں ہے کہ نظر میں کچھ بھی حق نہیں ۔ [مسند احمد:5/146:صحیح] ‏‏‏‏ سب سے سچا شگون فال ہے ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب کہتے ہیں [سنن ترمذي:2061،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ کوئی ڈر، خوف، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے ۔

اور روایت میں ہے کہ نظر حق ہے، نظر حق ہے، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے ۔ [مسند احمد:294/1:حسن] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.