تفسير ابن كثير



طوفان نوح ٭٭

بعد ازاں اپنا احسان جتاتا ہے کہ ” دیکھو جب نوح کی دعا کی وجہ سے زمین پر طوفان آیا اور پانی حد سے گزر گیا چاروں طرف ریل پیل ہو گئی نجات کی کوئی جگہ نہ رہی اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا۔ “

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب قوم نوح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایذاء رسانی شروع کی اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے اس وقت نوح علیہ السلام نے تنگ آ کر ان کی ہلاکت کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا اور مشہور طوفان نوح نازل فرمایا جس سے سوائے ان لوگوں کے جو نوح علیہ السلام کی کشتی میں تھے روئے زمین پر کوئی نہ بچا پس سب لوگ نوح علیہ السلام کی نسل اور آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پانی کا ایک ایک قطرہ بہ اجازت اللہ پانی کے داروغہ فرشتہ کے ناپ تول سے برستا ہے اسی طرح ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی بے ناپے تولے نہیں چلتا لیکن ہاں عادیوں پر جو ہوائیں چلیں اور قوم نوح پر جو طوفان آیا وہ تو بے حد، بے شمار اور بغیر ناپ تول کے تھا اللہ کی اجازت سے پانی اور ہوا نے وہ زور باندھا کہ نگہبان فرشتوں کی کچھ نہ چلی۔ اسی لیے قرآن میں «اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ» [69-الحاقة:11] ‏‏‏‏ اور «وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ» [69-الحاقة:6] ‏‏‏‏ کے الفاظ ہیں، اسی لیے اس اہم احسان کو اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے کہ ” ایسے پُر خطر موقعہ پر ہم نے تمہیں چلتی کشتی پر سوار کرا دیا تا کہ یہ کشتی تمہارے لیے نمونہ بن جائے چنانچہ آج بھی ویسی ہی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کے لمبے چوڑے سفر طے کر رہے ہو۔ “

جیسے اور جگہ ہے «وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ» [43-الزخرف:13،12] ‏‏‏‏، یعنی ” تمہاری سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے جانور بنائے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور سوار ہو کر اپنے رب کی نعمت یاد کرو۔ “

اور جگہ فرمایا «وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ» [36-يس:42،41] ‏‏‏‏ یعنی ” ان کے لیے ایک نشان قدرت یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں چڑھا لیا اور بھی ہم نے اس جیسی ان کی سواریاں پیدا کر دیں۔ “

قتادہ رحمہ اللہ نے اوپر کی اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہی کشتی نوح باقی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اگلوں نے بھی اسے دیکھا، لیکن زیادہ ظاہر مطلب پہلا ہی ہے۔

پھر فرمایا ” یہ اس لیے بھی کہ یاد رکھنے اور سننے والا کان اسے یاد کرے اور محفوظ رکھ لے اور اس نعمت کو نہ بھولے “، یعنی صحیح سمجھ اور سچی سماعت والے، عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھنے والے، جو اللہ کی باتوں اور اس کی نعمتوں سے بےپرواہی اور لاابالی نہیں برتتے ان کی پندو نصیحت کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا۔

ابن ابی حاتم میں ہے مکحول فرماتے ہیں جب یہ الفاظ اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ علی کو ایسا ہی بنا دے۔ ، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز سن کر پھر میں نے فراموش نہیں کی، یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے لیکن مرسل ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34771:مرسل] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں تجھے نزدیک کروں، دور نہ کروں اور تجھے تعلیم دوں اور تو بھی یاد رکھے اور یہی تجھے بھی چاہیئے۔ اس پر یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34772:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ روایت دوسری سند سے بھی ابن جریر میں مروی ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.