تفسير ابن كثير



اللہ کا عرش اٹھانے والے فرشتے ٭٭

پھر فرمایا ” قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ “ پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لیے ہو گا۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ»

سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے۔

ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں، اسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ [سنن ابوداود:4727،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے۔

پھر فرمایا: ” قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے، اسی لیے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا۔ “

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے لوگو اپنی جانوں کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ اندازہ کر لو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے تم پیش کر دیئے جاؤ گے۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر، معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہو گی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے۔ [سنن ترمذي:2425،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.