تفسير ابن كثير



اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا ٭٭

سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:398/1] ‏‏‏‏ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:399/1] ‏‏‏‏ اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔

ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ» [ 6۔ الانعام: 44 ] ‏‏‏‏ جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:398/1] ‏‏‏‏ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لیے ہے اور «بعوضۃ» کا زیر بدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے یا ما نکرہ موصوفہ ہے اور «بعوضہ» صفت ہے ابن جریر ما کا موصولہ ہونا اور بعوضہ کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لیے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے۔ «یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمد ایانا» ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل حُبِّ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعوضہ منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔ کسائی رحمہ اللہ اور فراء رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ اور ابراہیم بن عبلہ رحمہ اللہ «بعوضہ» پڑھتے ہیں۔ ابن جنبی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ «ما» کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت «تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ» [ 6-الأنعام: 154 ] ‏‏‏‏ میں «فما فوقھا» کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ کسائی رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ [سنن ترمذي:2320، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لیے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی؟ قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں۔ [صحیح مسلم:2572:صحیح] ‏‏‏‏ اس حدیث میں بھی یہی لفظ «فوقھا» ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔

ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے «يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ» [ 22-الحج: 73 ] ‏‏‏‏ کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہو جائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ عابد اور معبود دونوں ہی بے حد کمزور ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا «مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ» [ 29-العنكبوت: 41 ] ‏‏‏‏ ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے۔

اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے «أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ» [ 14-إبراهيم: 24 - 27 ] ‏‏‏‏ کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لیے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے۔

دوسری جگہ فرمایا «ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا» [ 16-النحل: 75 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں۔ اور جگہ فرمایا «وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ» ‏‏‏‏ [ 16-النحل: 76 ] ‏‏‏‏ دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟

دوسری جگہ ہے «ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ» [ 30-الروم: 28 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو؟ اور جگہ ارشاد ہے «ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ» [ 39-الزمر: 29 ] ‏‏‏‏ ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور «وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» [ 29-العنكبوت: 43 ] ‏‏‏‏ انہیں [ پوری طرح ] ‏‏‏‏ صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:93/1] ‏‏‏‏ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔ «انہ» کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورۃ المدثر میں آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰىِٕكَةً» [ 74۔ المدثر: 31 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.