تفسير ابن كثير



ستارے کیوں جھڑتے ہیں؟ ٭٭

اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ الہٰی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں ۔ [صحیح مسلم:771] ‏‏‏‏

ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے الخ۔ [صحیح مسلم:2229] ‏‏‏‏ یہ حدیث پورے طور پر سورۃ سباء کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا، جنات کا ان سے ہلاک ہونا، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چنانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا۔

سورۃ الأحقاف کی آیت «‏‏‏‏وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ» ‏‏‏‏ [46-الأحقاف:29] ‏‏‏‏ میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے۔

ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا۔

سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹکھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گھبرا گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہو گئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کر دیئے۔ آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو! تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لیے ہو رہے ہیں (‏‏‏‏یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے) اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو، انہوں نے نجوم دیکھا تو ستارے سب اپنی اپنی مقررہ جگہ پر نظر آئے تب انہیں چین آیا۔

شیاطین میں بھاگ دوڑ مچ گئی یہ ابلیس کے پاس آئے واقعہ کہہ سنایا تو ابلیس نے کہا، میرے پاس ہر ہر علاقے کی مٹی لاؤ، چنانچہ لائی گئی، اس نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب کا سبب مکہ میں ہے، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاں حضور علیہ السلام مسجد الحرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر ان کے دل نرم ہو گئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی۔ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب السیرۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.