تفسير ابن كثير



ابتدائے وحی ٭٭

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت «‏‏‏‏يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ» [74-المدثر:1] ‏‏‏‏ نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ» [96-العلق:1] ‏‏‏‏ کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا۔ «ان شاء اللہ تعالیٰ»

یحییٰ بن ابو کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کون سی آیتیں نازل ہوئیں؟ تو فرمایا «‏‏‏‏يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ» [74-المدثر:1] ‏‏‏‏ میں نے کہا لوگ تو آیت «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ» [96-العلق:1] ‏‏‏‏ بتاتے ہیں فرمایا میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا۔ میں خدیجہ کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت «‏‏‏‏يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ» ‏‏‏‏ [74-المدثر:1] ‏‏‏‏ کی آیتیں اتریں ۔ [صحیح بخاری:4922] ‏‏‏‏

صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورۃ المدثر کی «‏‏‏‏وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ» [74-المدثر:5] ‏‏‏‏ تک کی آیتیں اتریں ۔ ابوسلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رُّجْزَ» سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی۔ [صحیح بخاری:4926] ‏‏‏‏ یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے۔

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورۃ اقراء کی آیتیں «‏‏‏‏عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ» [96-العلق:5] ‏‏‏‏ تک پڑھا گئے تھے۔

پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی سب سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں ۔ [صحیح بخاری:3238] ‏‏‏‏

طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے، بعض نے کہا شاعر ہے، بعض نے کہا شاعر نہیں ہے، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں «وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ» [74-المدثر:7] ‏‏‏‏ تک اتریں۔ [طبرانی کبیر:11250،قال الشيخ زبیرعلی زئی:ضعیف] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.