تفسير ابن كثير



ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں؟ ٭٭

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:408/1] ‏‏‏‏ فاسقین سے مراد منافق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔

سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔ اگر اس قول کی سند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں۔ انہیں خارجی اس لیے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں «فسقت» چوہے کو بھی «فویسقہ» کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔

صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا۔ [صحیح بخاری:3314:صحیح] ‏‏‏‏ پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔

مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ الرعد میں بیان ہے کہ آیت «أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ» [ 13-الرعد: 19 - 21 ] ‏‏‏‏ کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں۔

آگے چل کر فرمایا «وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ» [ 13-الرعد: 22 - 25 ] ‏‏‏‏ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے۔

بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر اور ان کے منافق ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔ عہد سے مراد توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔

فرمایا گیا تھا کہ آیت «وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا» [7-الأعراف:172] ‏‏‏‏ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو سب نے جواب دیا تھا «بَلَىٰ» بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت «وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ» [ البقرة: 40 ] ‏‏‏‏ میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت «وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا» [7-الأعراف:172] ‏‏‏‏ جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔

ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا، زمین میں فساد پھیلانا۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے۔

جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت «فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ» [ 47۔ محمد: 22 ] ‏‏‏‏ قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:416/1] ‏‏‏‏ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔ «خاسرون» سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:101/1] ‏‏‏‏ جیسے فرمان باری ہے۔ آیت «اُولٰىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْءُ الدَّارِ» [ 13۔ الرعد: 25 ] ‏‏‏‏ ان لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لیے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:417/1] ‏‏‏‏ خاسرون جمع ہے خاسر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لیے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافر و منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.