تفسير ابن كثير



فصل ٭٭

ابو زرین رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات ہی لیلۃ القدر ہے۔‏‏‏‏ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ یہ سترھویں شب ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد میں اس مضمون کی ایک حدیث مرفوع مروی ہے۔ [سنن ابوداود:1384،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

اور سیدنا ابن مسعود، سیدنا زید بن ارقم اور عثمان بن العاص رضی اللہ عنہم سے موقوف بھی مروی ہے۔ حسن بصری کا مذہب بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔

اس کی ایک دلیل یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ رمضان المبارک کی یہی سترھویں رات شب جمعہ تھی اور یہی رات بدر کی رات تھی اور سترھویں تاریخ کو جنگ بدر واقع ہوئی تھی جس دن کو قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے۔ سیدنا علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انیسویں رات لیلۃ القدر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اکیسویں رات ہے۔‏‏‏‏

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے دس پہلے دن کا اعتکاف کیا ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اعتکاف بیٹھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو آپ کے آگے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سے بیس تک کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہی فرمایا کہ جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو ابھی بھی آگے ہے یعنی لیلۃ القدر۔‏‏‏‏ پس رمضان کی بیسویں تاریخ کی صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ فرمایا اور فرمایا کہ میرے ساتھ اعتکاف کرنے والوں کو چاہیئے کہ وہ پھر اعتکاف میں بیٹھ جائیں میں نے لیلۃ القدر دیکھ لی لیکن میں بھول گیا، لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے، میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔‏‏‏‏ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت صرف کھجور کے پتوں کی تھی آسمان پر اس وقت ابر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ تھا، پھر ابر اٹھا اور بارش ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب سچا ہوا اور میں نے خود دیکھا کہ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر تر مٹی لگی ہوئی تھی اسی روایت کے ایک طریق میں ہے کہ یہ اکیسویں رات کا واقعہ ہے ۔ [صحیح بخاری:2018] ‏‏‏‏ یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم دونوں میں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمام روایتوں میں سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے۔‏‏‏‏ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کی تئیسویں رات ہے اور اس کی دلیل عبداللہ بن انیس کی صحیح مسلم والی ایسی ہی ایک روایت ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چوبیسویں رات ہے۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لیلۃ القدر چوبیسویں شب ہے ۔ [مسند طیالسی:2167] ‏‏‏‏ اس کی سند بھی صحیح ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے۔ [مسند احمد:12/6:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ ہیں جو ضعیف ہیں۔

بخاری میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ہیں مروی ہے کہ یہ پہلی ساتویں ہے آخری دس میں سے، یہ موقوف روایت ہی صحیح ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن مسعود ابن عباس جابر رضی اللہ عنہم حسن، قتادہ عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ علیہم بھی فرماتے ہیں کہ چوبیسویں رات لیلۃ القدر ہے۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہوئی مرفوع حدیث بیان ہو چکی ہے کہ قرآن کریم رمضان شریف کی چوبیسویں رات کو اترا۔

بعض کہتے ہیں پچیسویں رات لیلۃ القدر ہے ان کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو۔ نو باقی رہیں تب، سات باقی رہیں تب، پانچ باقی رہیں تب ۔ [صحیح بخاری:2021] ‏‏‏‏

اکثر محدثین نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد طاق راتیں ہیں یہی زیادہ ظاہر ہے اور زیادہ مشہور ہے گو بعض اوروں نے اسے جفت راتوں پر بھی محمول کیا ہے جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسے جفت پر محمول کیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے اس کی دلیل صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: یہ ستائیسویں رات ہے ۔ [صحیح مسلم:762] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے سیدنا زر رضی اللہ عنہ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود تو فرماتے ہیں جو شخص سال بھر راتوں کو قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کو پائے گا آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے وہ جانتے ہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے یہ ستائیسویں رات رمضان کی ہے پھر اس بات پر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی میں نے پوچھا: آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ جواب دیا کہ ان نشانیوں کو دیکھنے سے جو ہم بتائے گئے ہیں کہ اس دن سورج شعاعوں بغیر نکلتا ہے ۔ [صحیح مسلم:762] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے، آپ نے اس پر ان شاءاللہ بھی نہیں فرمایا اور پختہ قسم کھا لی پھر فرمایا: مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ کون سی رات ہے جس میں قیام کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے یہ ستائیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح کو سورج سفید رنگ نکلتا ہے اور تیزی زیادہ نہیں ہوتی ۔ [صحیح مسلم:762] ‏‏‏‏

سیدنا معاویہ، ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رات ستائیسویں رات ہے ۔

سلف کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مختار مسلک بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت اسی قول کی منقول ہے۔

بعض سلف نے قرآن کریم کے الفاظ سے بھی اس کے ثبوت کا حوالہ دیا ہے اس طرح کہ «هِيَ» اس سورت میں ستائیسواں کلمہ ہے اور اس کے معنی ہیں یہ۔‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

طبرانی میں ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا اور ان سے لیلۃ القدر کی بابت سوال کیا تو سب کا اجماع اس امر پر ہوا کہ یہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت فرمایا کہ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر کہو وہ کون سی رات ہے؟ فرمایا اس آخری عشرے میں سات گزرنے پر یا سات باقی رہنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیسے معلوم ہوا تو جواب دیا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے آسمان بھی سات پیدا کیے اور زمین بھی سات بنائیں، مہینہ بھی ہفتوں پر ہے، انسان کی پیدائش بھی سات پر ہے، کھانا بھی سات ہے، سجدہ بھی سات پر ہے، طواف بیت اللہ کی تعداد بھی سات کی ہے، رمی جمار کی کنکریاں بھی سات ہیں اور اسی طرح کی سات کی گنتی کی بہت سی چیزیں اور گنوا دیں۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہاری سمجھ وہاں پہنچی جہاں تک ہمارے خیالات کو رسائی نہ ہو سکی یہ جو فرمایا سات ہی کھانا ہے اس سے قرآن کریم کی آیتیں «فَاَنْبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا» [80-عبس:27] ‏‏‏‏، مراد ہیں جن میں سات چیزوں کا ذکر ہے جو کھائی جاتی ہیں۔

اس کی اسناد بھی جید اور قوی ہے کہ انتیسویں رات ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسے آخری عشرے میں ڈھونڈو طاق راتوں میں، اکیس، تیئس، پچیس ستائیس اور انتیس یا آخری رات ۔ [مسند احمد:318/5:حسن دون الجملة] ‏‏‏‏

مسند میں ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے، یا انتیسویں۔ اس رات فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ [مسند احمد:519/2:حسن] ‏‏‏‏ اس کی اسناد بھی اچھی ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ آخری رات لیلۃ القدر ہے کیونکہ ابھی جو حدیث گزری اس میں ہے اور ترمذی اور نسائی میں بھی ہے کہ جب نو باقی رہ جائیں یا سات یا پانچ یا تین یا آخری رات یعنی ان راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کرو ۔ [سنن ترمذي:794،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏ امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مسند میں ہے یہ آخری رات ہے ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.