تفسير ابن كثير



عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت ٭٭

اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس وقت کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لیے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہٰی کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبر دی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچا لیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میری امت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9926:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم)

اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک سیدنا ابن ام عبد رضی اللہ عنہ بھی ہوتے ہیں [الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم)

دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔ [الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

ارشاد الٰہی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا کہ وہ حکم کی مخالفت کریں اور ممانعت میں مشغول ہوں۔ یہی عمل زیادہ سچائی والا ہوتا اسکے نتیجے میں ہم انہیں جنت عطا فرماتے اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے پھر فرماتا ہے جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کا جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں پھر شہیدوں کا پھر تمام مومنوں کا جنہیں صالح کہا جاتا ہے جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا خیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے

صحیح بخاری شریف میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض الموت کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، اور نیکوکار ہیں۔ یہ سن کر مجھے معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحیح بخاری:4463] ‏‏‏‏ یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اے اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہو گئے۔ [صحیح بخاری:4463] ‏‏‏‏ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.