تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 56،55) اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ بات کہنے والے وہ ستر آدمی تھے جن کا سورۂ اعراف (۱۵۵) میں ذکر ہے، جنھیں موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کے لیے چنا تھا، جب موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم تمھارے کہنے پر ہر گز یقین نہیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں، اس پر وہ رجفہ(زلزلہ) اور صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے بے ہوش ہو کر مر گئے، پھر موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔ یہاں موت سے بے ہوشی مراد لینا درست نہیں، کیونکہ یہاں واضح طور پر « مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ » آیا ہے اور سورۂ اعراف(۱۵۵) میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا میں: « لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِيَّايَ » (اگر تو چاہتا تو انھیں اس سے پہلے ہلاک کر دیتا اور مجھے بھی۔) آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا مطالبہ بہت بڑی گستاخی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (153) اور فرقان (۲۱)۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.